خالدہ ضیاء، بنگلہ دیش کی پہلی خاتون وزیر اعظم: طاقت اور مزاحمت کی ایک زندگی
80 سالہ خالدہ ضیاء نے 1980 کی دہائی میں فوجی قبضے کے بعد جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد کی، لیکن بدعنوانی کے الزامات نے ان کی ورثے کو داغدار کیا۔ وہ بنگلہ دیش کی پہلی منتخب خاتون وزیر اعظم تھیں جنہوں نے تین بار حکومت کی۔

خالدہ ضیاء کی سیاسی زندگی کا اجمالی جائزہ
خالدہ ضیاء بنگلہ دیش کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں جنہوں نے اپنی زندگی میں جمہوریت، مزاحمت اور قربانی کی مثالیں قائم کیں۔ انہوں نے 1980 کی دہائی میں فوجی حکومت کے خلاف جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کا سیاسی سفر ان کے شوہر صدر ضیاء الرحمٰن کے قتل کے بعد شروع ہوا، جس کے بعد وہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) کی قیادت میں آئیں۔
- 1980 کی دہائی: فوجی حکمران حسین محمد ارشاد کے خلاف جمہوریت کی بحالی کی تحریک میں فعال کردار
- 1991: بنگلہ دیش کی پہلی منتخب خاتون وزیر اعظم بنیں
- اقتصادی پالیسیاں: معاشی آزادی، برآمد پر مبنی ترقی، گارمنٹ سیکٹر کی توسیع
- تعلیمی اصلاحات: خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم تک رسانی میں اضافہ
"وہ اپنے ملک کو ذاتی آرام پر ترجیح دیتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ وہ تمام سیاسی خطوط میں اپنے وقت کی علامتی رہنما کے طور پر یاد کی جاتی ہیں۔" - ڈیلارا چودھری، سیاسی سائنسدان
"انہوں نے مشکلات کے باوجود ملک چھوڑنے سے انکار کر دیا، یہ عزم انہیں دوسروں سے الگ کرتا تھا۔" - محی الدین احمد، سیاسی مورخ
خالدہ ضیاء کی وراثت ایک پیچیدہ تصویر پیش کرتی ہے۔ ایک طرف انہیں جمہوریت کی بحالی اور معاشی ترقی کے لیے سراہا جاتا ہے، دوسری جانب بدعنوانی کے الزامات اور سیاسی فیصلوں پر تنقید کا سامنا رہا۔ ان کی وفات کے بعد اب سوال یہ ہے کہ بی این پی ان کے بیٹے تاریق رحمٰن کی قیادت میں ان کی ورثے کو کیسے آگے بڑھائے گی۔


